عرس پاک سید سید محمد سائیں گیلانی القادری الشیخوی

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
سید سید محمد سائیں گیلانی علیہ الرحمت
تحریر : سید افضال حسین گیلانی
ایک شخصیت کا تعارف۔۔۔ ایک معزز گاؤں کے حال اور مستقبل کی روداد۔
دم دم ہے میرے لب پے رواں سید محمد
میرے لیے ہے راحت جاں سید محمد

’’ شیخوشریف ‘‘ تحصیل و ضلع اوکاڑہ میں سادات گیلانیاں کی ایک معروف بستی ہے۔ جسکا پرانا نام ’’چاہ توتاں والا ‘‘ ہے۔ جسکی قدامت کی تاریخ کے ڈانڈے ۱۷۵۷ ؁ ع کے غدر سے جا ملتے ہیں اور اسکی عظمت کے واسطے بغداد حلب اور اچ شریف تک پہنچتے ہیں ۔ ۱۷۵۷ ؁ ع کے غدر سے برصغیرپاک و ہند بری طرح متا ثرہوا خصوصاًمسلم قوم پر ٗہندو اور انگریز کی ملی بھگت سے جو آ فتیں ٹوٹیں ان واقعات سے تاریخ پاک وہند آج تک لہو لوہان ہے ۔ اس پر آشوب دور میں سلطان پور لودھیاں سے ہجرت کرکے آنے والا ۳۷ سالہ نوجوان سید زادہ ’’ حسن بخش ‘‘ غربی پنجاب کے مشہور عالم شہر لاہور میں اپنے’’ پرداد‘‘ سید عبدالرزاق گیلانی ؒ المعروف داتاشاہ چراغ کے مقبرہ( عقب ہائیکورٹ ) پرآ کر پناہ گزین ہوا۔
سلطان پور سے مہاجرت کا اصل سبب گھریلو جھگڑے اور خاندانی رقابتیں بھی تھیں ان بکھیڑوں کاباعث وہی قدیمی اولاد آدم کا وطیرہ ، حسد ، لالچ ، مال ، وراثت کی حرص و ہوس تھا ۔
سید حسن بخش ماں باپ کے اکلوتے فرزند تھے اور صرف ایک ہی بہن تھی اس لحاظ سے آ پ مال کثیر وراثت و حصص کے تنہا وارث تھے اور یہی چیزیں وجہ عناد اور باعث تنازعہ تھیں ۔ دونوں بہن بھائی کی شادی ’’ وٹے ‘‘ پر اپنے دودھیال میں ہو چکی تھی اور آپ ایک چار سالہ بیٹے کے باپ بھی تھے۔ جن کا نام عبد القادر تھا ۔ آپ کا خاندانی پس منظر جاننے کیلئے اچ شریف کی تاریخ دیکھنی پڑے گی جو غیر منقسم ہندوستاں کا بزرگ ترین شہر تھا ۔بلکہ آج بھی اسی تقدس کا حامل ہے ۔ آ پکا نسبی تعلق چند واسطوں سے اُچ کے ’’ محبوب سبحانی‘‘ مخدوم سید محمد غوث بندگی گیلانی ؒ تک پہنچتا ہے۔ 
سید حسن بخش کو از کنار چناب تا راوی و بیاس عرف عام میں ’’ حسنین سائیں ‘‘ کے لقب سے پکارا جاتا ہے ۔ شیخو شریف آ پکی آباد کردہ بستی ہے۔ اس نسبت سے آپ کو ’’ بانی شیخو شریف ‘‘ کہہ کر بھی یا د کیا جاتا ہے۔ 
حسنین سائیں نے گھریلو ناچاکیوں اور وراثت کے نت نئے جھگڑوں سے اکتاکر ، خاندان بیوی بچے اور تمام رشتہ داروں کو چھوڑ کر سکون اور اطمینان کی تلاش میں لا ہور اپنے جد اعلیٰ کے مزار پر معتکف ہو گئے ۔جس بے سکونی اور بے اطمینانی کی وجہ سے آپ نے گھر بار ، خویش و اقرباء اور سلطان پور کو چھوڑا تھا انھیں حالات اور مسائل کا سامنا لاہور میں بھی کرنا پڑا کیونکہ بہت کچھ حصہ جائیداد کا متعلقہ دربار حضرت شاہؒ چراغ بھی آپ کی ملکیت تھا لہذایہاں موجود قریبی رشتہ دار جو دربار کے سجادگان و متولیان تھے ، آپ کی موجودگی سے نہایت ناخوش تھے انکا سرد رویہّ محسوس کرکے انتہائی بد دل ہوئے اور لاہور سے دیپال پور ضلع اوکاڑہ کا عزم سفر کیا ۔ یہاں آپ نے چندے قیام کیا اور اپنے ایک عزیز عقیدت مندرشتہ کے برادر سید محمد عبداللہ شاہ المعروف سیدن سائیں گیلانی کے مہمان رہے ۔ سیدن سائیں آپ کی دلبرداشتگی کی وجوہات سے پوری طرح واقف تھے اور آپکو حق پر سمجھتے تھے ۔ لہذا انھوں نے آپ کی بہت دلجوئی کی اور چاہا کہ وہ دیپال پور ہی میں مستقل قیام اختیار کر لیں۔ مگر حسنین سائیں نے اس طرح پسند نہ فرمایا اور ستگھرہ چلے آئے ۔ ایک روایت کے مطابق سیدن سائیں آپکے مرید اور صاحب خرقہ و خلافت بھی تھے ۔
ستگھرہ آ کر آپ نے اپنے سگے ماموں سید غلام محمد غوث بن سید غلام مرتضی گیلانی جو کہ آپ کے والد ماجد کے نام زد خلیفہ اور صاحب خرقہ بھی تھے کے پاس کچھ عرصہ قیام کیا اور پھر مزار گوہر بار سرکار سید محمد غوث بالا پیر ؒ آج کا محل و وقوع چک نمبر ۱۱ ون ۔ آر ضلع اوکاڑہ پر زیارت کی غرض سے آئے اور پھر مستقل اعتکاف کی نیت کر کے بیٹھ گئے اور آئیندہ یہیں مستقل قیام کا ارادہ کر لیا ۔ دوران اعتکاف آپ کو بہ سمت مغرب پانچ کوس کے فاصلے پر ایک جگہ چاہ توتاں والا پر قیام دوام کی ہدایت ملی۔
یہ حکم بصورت کشف القا ہوا تھا۔ اعتکاف کے بعد آپ کی ملاقات ایک درویش منش زمنیدار شیخو وجھیرہ سے ہو ئی ۔یہ عمر رسیدہ شخص ایک کھرل قبیلے کا سردار تھا اس نے آپ ؒ کو اپنے پاس قیام کی پیشکش کی اس دعوتِ قیام سے آپ ؒ کو انپے باطنی کشف والقا ء کی تصدیق مل گئی اور آپؒ شیخو وجھیرہ کے سا تھ اس کے علاقہ میں آگئے ۔ اوبموجب حکم غوثیت مآب بالا پیر امیر علیہ الرحمہ چاہ توتاں والے کو شیخو شریف کا نام دے کر رونق افروز کیا۔ 
حضرت سید حسن بخش المروف حسنین سائیں کی دوسری شادی ستگھرہ کے رئیس سید غلام محمدغوث گیلانی ؒ بن سید غلام مرتضے ٰ گیلانی ؒ کی دخترنیک اختر سے ہوئی جن کے بطن سے وہ عالی وقار ولی اللہ پیدا ہوا جنکا تعارف آج اس کالم میں مقصود ہے ۔ اس نو مولود کا نام سید محمد رکھا گیا اور سیدالفقراء’’ سید محمد‘‘ سائیں کے نام و لقب سے مشہور خلائق ہوا ۔ آپ اپنے زمانہ کے صاحب کشف وکرامات بزرگ تھے ۔ اگرچہ کسی مکتب ومدرسہ یا کالج یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تو نہ تھے تاہم اپنے فطری لگاؤ اور ریاضت و مجاہدہ کی بدولت ولائیت و قطبیّت کے بلند درجہ پر فائزتھے۔ مرجع ، خلایق اور مستجاب الدعوات تھے آپ فرماتے تھے کہ مجھے آقا ومولا رسول اکرم ﷺکی زیارت کئی بار ہوئی اور تاآخرِ حیات حضرت غوث اثقلینؓ کی حضوری سے مشرف رہا ہوں ۔ ایام مجاہدہ میں ہر ملاقات پر حضرت غوث اعظم محبوب سبحانیؓ نے مجھے توکل ‘ توبہ ‘ ذکروفکر ‘تعززوتکبر ‘ انابت ‘ صبروشکر ‘فناو بقا ، صدق وصفا ، حسن خلق اور دیگر رموز تصوف و احسان تفصیلا تشریحا سمجھا سکھا کر فیضیاب کیا ۔ حتی کہ میری صفات مٹ گئیں اور میں نے قرب و حضوری کو پالیا ۔ اور ماسویٰ اللہ سے بے نیاز ہوگیا۔ 
سید محمد سائیںؒ نے ۱۲۶۰ ہجری بمطابق ۳ اپریل ۱۸۴۹ ع میں وفات پائی آپکا سن ولادت ذوالحج۱۱۸۰ ہجری بمطابق ۱۷۶۹ ع ہے۔ اس لحاظ سے آپ نے کل عمر ۸۰سال پائی جو کہ حصول رشد و ہدایت اور اشاعت تعلیمات سلسلہ قادریہ غوثیہ میں بسرہوئی۔ 
آپ ؒ کے خلفاء میں سے جن کو شہرت عام اور رفعت دوام حاصل ہوئی ان میں سر فہرست شیخو شریف کے سید عبدالرزاق المشہور زلفاں والے سرکار کا نام آتا ہے۔ اور پھر سید مبارک گیلانی رئیس بستی غلام قادر ( پاکپٹن شریف) کا ذکر متواتر بدستور ہے جو کہ سید اصغر علی شاہ و سیدحیدر امام عرف چن پیر کے جد اعلیٰ تھے۔
جناب سید سید محمد سائیں کے مناقب و فضائل اور آپکی شخصیت اور نسب و نجابت کی تفصیل ایک طوالت کی متقاضی ہے ۔ اس مختصر کالم میں مجھے کچھ اور بھی عرض کرنا ہے ۔ وہ ڈیڑھ سو سال سے جاری آپ کے عرس و میلہ کے متعلق دل سوزی کی باتیں ہیں ۔ جناب کے علو مرتبت ولائیت کے گواہ آج بھی موضع اکبر ( ضلع اوکاڑہ) ’’ آدھن ‘‘ ’’ گہلن ‘‘ ( ضلع قصور ) جندراکہ ، جبوکہ ( ضلع اوکاڑہ ) کے وہ مقتدر سردار گھرانے ہیں جنکے اجداد نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کر کے اسلام قبول کیا تھا۔
احقر راقم السطور کو تقسیم ہند سے پہلے کے عرس مبارک کے کچھ خواب دیدہ منظر اب تک یادوں میں پھرتے ہیں ۔ میں دیکھتا ہوں کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ سکھ ، ہندو اور دراوڑ قوم کے مشر ک قبائل باری باری آپ کے احاطہ دربار میں ’’ دھمال ‘‘ پائے ہوئے ہیں ۔ اور اپنی اپنی عقیدت و محبت کے مظاہر ے کر رہے ہیں ۔۔۔ اسکے بعد کے عرائس اور میلوں کے نظارے تو اچھی طرح یاد ہیں۔ کہ علاقائی کھیل اور تماشوں کے علاوہ وہ پر لطف محفلیں ، ذکر و فکر ، وعظ و تلقین کے ساتھ ساتھ پاکیزہ سماع کی مسحور کن نشستیں جو کہ قطب الوقت سید محمد حسین گیلانی ؒ کی سرپرستی میں ہوا کرتی تھیں۔ اور آج ۔۔۔ اور آج تو ان نورانی ، روحانی قافلوں کی دھول بھی نہیں دکھائی دے رہی ہے۔


Comments

Popular posts from this blog

سیرت سوانح سید عبدالرزاق المعروف داتا شاہ چراغ لاہوریؒ

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود پاک پڑھنا چاہیے یا نہیں؟ بہت خوب صورت تحریر ضرور پڑھیں