سیرت سوانح سید عبدالرزاق المعروف داتا شاہ چراغ لاہوریؒ

سیدنا عبدالرزاق گیلانی المشہور دتا شاہ چراغ لاہوریؒ 
تحریر : سید سیْد علی ثانی جیلانی، شیخوشریف اوکاڑہ

تقدیم:

اب تک جتنے مضامین اس سلسلہ میں لکھے جاچکے ہیں ۔ان میں بھی میرا کوئی کمال نہیں۔محض میرے اجدادامجد اورپیران سلسلہ کی توجہ کافیض ہے۔مگر تھوڑی فکرہواکرتی تھی اورکچھ روایات کوسرمایہ بناکر اپنی نگارشات کامحل استوارکرلیتاتھا۔مگراب کی بارایسی تمام فکروں سے آزادتھا۔کہ اس بارلکھنامجھے اس ہستی پہ تھاجن کاتعارف خاندان کی وجہ سے نہیں بلکہ خاندان کے تعارف میں اس ہستی کاحصہ فراواں ہے۔جسے سرزمین لاہور ’’حضرت داتاشاہ چراغ لاہوری ‘‘کے نام سے یاد کرتی ہے۔
مگراب جب لکھنے کوقلم اٹھایاہے تومعاملہ پہلے سے زیادہ کٹھن معلوم ہوا،روایات کااتناہجوم سامنے ہے کہ قو ت فیصلہ جواب دے گئی کہ کیالکھوں ۔کیاجانے دوں،کس پراپنی مہرتصدیق ثبت کروں اورکن کوخرافات سمجھوں۔اورپھرمیرااوراس ولی اللہ کارشتہ صرف تاریخ ومورخ کی حد تک ہی نہیں بلکہ قریبی نسبی رشتہ ہے۔مجھے پتہ ہے کہ آج جب تحقیق وتنقیدکازمانہ ہے ۔میرالکھاحرف حرف جہاں جہاں تک سندبنے گاوہاں وہاں تک لائق پرسش بھی ہوگا اس کو کوئی درخوداعتنانہیں سمجھے گا۔ان گذشتہ چارصدیوں میں تاریخ اورمورخین نے جوگردروایات پرجمائی ہے اس کو چھاٹنا،صاف ومصفیٰ کرنااتناآسان کام نہ تھاجتنامیں سمجھ رہاتھا۔
اوردوسری مشکل ۔۔۔منقول روایات کاایک الگ پلندہ تھا۔اورخاندانی روایات ایک الگ ہجوم کیے ہوئے تھیں۔
عین اسی وقت میں برادرم قبلہ پیرطاہرحسین حنفی القادری نے ایک مژدہ جانفزاسنایاکہ لاہورمیوزیم میں ایک مخطوطہ جوسیدمجتبی بن سیدمصطفی بن سیدداتاشاہ چراغ لاہوری موجود ہے ۔ دستیاب ہواہے۔اس کانام ’’عین التصوف ‘‘ہے ۔اوراسمیں اکثر جگہ مصنف اپنی خاندانی روایات بھی ذکرکرتے ہیں اوراپنے آباکاذکربھی ۔
یہ تیسری روایات کی ایک کڑی تھی جس نے کام مزیدآسان ۔۔۔یا۔۔۔مشکل کردیا۔ممکن ہے کہ روایات کایہ تیسرامآخذپہلے تعمیرکیے گئے محلات کوبالکل ہی تہہ وبالاکردے۔بہرحال یہ مآخذمعمولی تحقیق وتنقیدکے بعدہرطرح سے قابل اعتماداورلائق اعتبارہے۔روایات کی جن کڑیوں کاذکر میں نے ترتیب سے کیاہے اسی ترتیب سے یہ لائق اعتناء ہیںیعنی ‘منقول روایات جواس دورکی کتب میں موجودہیں۔
ان سے زیادہ معتبر وہ روایات ہیں جوہماری خاندانی ،یعنی سینہ کزٹ ہیں اوران سے زیادہ معتبر روایات اس مخطوط کی ہوں گی ۔
مجھے یہ کام شروع میںآسان اس لیے لگاکہ میرے ہاتھوں تمام موادلکھالکھایاآگیاتھااوراب ۔۔۔یہی کام مشکل اس لیے لگ رہاہے کہ اس میں تضادات اورترادفات کاایک سیلاب ہے جوبہاچلاجارہاہے ۔
اس سلسلہ کی سب سے پہلی کڑی میری کتاب ’’شجراۃالاشراف‘‘تھی جو 2002ء میں شائع ہوئی ۔الحمدللہ ،وہ اگرچہ اس ضمن میں مختصر ضرور تھی مگرمعتبراورجامع تھی ۔۔۔اس میں جوکچھ اس فقیر نے ظن وگمان کی بناپربھی لکھاتھامیں حرف بہ حرف پیایہ ثبوت کوپہنچا ۔۔۔لہذااتنی طویل تمہید میں، میں جوکہناچاہتاہوں وہ یہی تھا۔۔۔ کہ اب بھی میں سابقہ مورخین کی فہرست میں شامل نہیں ہوناچاہتاکہ رطب یاس روایات میں بناکوئی تخصیص وتنقیدکیے درج کرتاچلاجاؤں ،جوبعد میں نئے طالب علموں کیلے محض ایک الجھن اوربے ربط خیالات کے ملنے کے سواکچھ نہ ہوں۔
کافی دیرسے میرے قبلہ وکعبہ والدگرامی کی خواہش تھی کہ’’حضرت داتاشاہ چراغ ‘‘کی سیرت پرایک جامع دستاویزقلمبند کروں (جس کیلئے بیشتر کام وہ کرچکے تھے)۔ساتھ ہی برادرم قبلہ طاہرحسین اس کے محرک تازہ دم ثابت ہوئے ۔۔۔اب ۔۔۔اس بحر میں چھلانگ لگانے کے سواکوئی چارہ نہیں جبکہ میں’’من تارا‘‘ہوں ۔پرمیرے دستگیرپیران پیر میرے چارہ گرہیں۔اس لیے کوئی خوف دامن گیر نہیں۔۔۔ سردست صرف حضورسیدناعبدالرزاق،شاہ چراغ گیلانی لاہوری ؒ کاصرف سوانحی خاکہ ہی بیان کروں گااورچیدہ چیدہ اس دورکے نقوش ممکن ہیں (اگرفضل ربی شامل حال رہاتو) اگلی بارآئینہ کرم کو میری طویل خام فرسائی کابوجھ اٹھانا پڑے ۔۔۔تولیجئے جناب ہم اس دورکے لاہور میں چلتے ہیں۔
شہزادہ محمدسلیم شیخونورالدین جہانگیرکے نام سے متمکن بادشاہت ہوا۔۔۔اگرچہ اپنے باپ کی بڑھائی ہوئی مذہبی خرافات کوختم کرنے میں تقریباًکامیاب ہوا۔مگراس کی رنگین مزاجی اورشوقین طبیعت نے کئی دشمنان اسلام اورحاسدین کوایک جگہ مہیاکی لہذاانہوں نے اپنی بساط آزمائی شروع کردی۔یہ شہنشاہ اکبر کی اکلوتی اولادتھا۔لہذااس لیے تخت وسلطنت کیلئے اسے کوئی جھگڑااٹھانانہیں پڑا۔خوشحالی کادورتھاامن اورعدل کادور بھی ۔جہانگیرنے دہلی اورآگرہ کی بجائے لاہورکوزیادہ اہمیت دی۔ 
خوشا لاہور و فیض آب لاہور
بطاعت میل شیخ و شاب لاہور
گمانم نیست اندر ہفت کشور
بود شہرے بآب وتاب لاہور
کنم زانُ رو مرید آساشب و روز
کرامت ہا بیان در باب لاہور
کہ پیر دستگیر و مرشد من
یکی قطب است از اقطاب لاہور
(طالب آ ملی)
لاہور اوراس کے نواح موجودہ شیخوپورہ تک اسکے قائم کردہ نشانات اسکی اس علاقہ سے خاص انس اورکیفیت کے مظہرہیں۔
اورآج تک تہ خاک لاہور سویاہواجسم اس پرشاہد ہے۔
ہم پچھلی سطورمیں بھی ہندوستان کی حالت کاجائزہ پیش کرتے آرہے ہیں۔مزیداس دورمیں شہنشاہ کامہروالنساء کو(جوایک ا یرانی عورت تھی ) اپنی زوجیت میں داخل کرنے کے بعدنورجہاں کے لقب سے نوازاجواس کے لیے بعدمیں ایک امتحان بن گیا۔وہ سلطنت کے ہرکام میں دخیل ہونے لگی ۔اسکے مزاج میں تشیع پن تھا۔اوراہل بیت کی محبت سے اتنی سرشارتھی کہ کوئی جھوٹ موٹ بھی اپناناطہ اس خاندان سے بتاتاتواسکے انعام وکرام کی موسلادھاربارش اس پہ برسنے لگتی ۔اس روش نے ایک گہرانقصان جوخاندان رسول ﷺ کوپہنچا یاوہ یہ تھاکہ ہرایراغیراہندوستان کاسادات حسنی یاحسینی بن بیٹھا۔
اورایران سے تواس قدرانسانوں کاسیلاب بہہ نکلاکہ اپنے آپ کوسادات حسینی کے لقب میں ظاہرکرکے عیش وآرام پانے لگا۔
اسوقت سادات کرام کے وہ خاندان ہی لائق اعتبارتھے جواس حکومت سے مدتوں پہلے یہاں جاگزین ہوچکے تھے۔خصوصاًسادات اچ(بخاری وگیلانی)اب ہندوستان میں سیداورغیرسیدکی تمیزکرنامشکل ہوگئی تھی۔
جہانگیرکی وفات کے بعدایک مزیدفتنہ اٹھاکہ شہزادہ شہریارجوسلیم کابیٹااورنورجہاں کادامادتھا۔وہ شہزادہ خرم جوشہنشاہ شہاب الدین شاہ جہاں کے نام سے تخت نشین ہواتھا۔اسکے مقابلہ میں اٹھ کھڑاہوا۔یوں دوشہزادوں کی باہمی چپکلش سے دارالخلافہ لاہورکاسکون بربادہوگیا۔شہریارکونورجہاں اورخرم شاہ جہاں کوآصف الدولہ(نورجہاں کابھائی)اس کی مددحاصل تھی دراصل یہ لڑائی دوبھائیوں(شہریاراورخرم )کی نہیں بلکہ دونوں بہن بھائی نورجہاں اورآصف الدولہ کی تھی۔ آخرکارخوفناک جنگ کے بعد شہریارکوشکست ہوئی اورخرم، شاہ جہان بن بیٹھا۔جوعلماء کاعموماًمشائخ وصلحاء کیلئے خصوصی عقیدت رکھتاتھا۔حضرت کادوربھی ان دوباپ بیٹے کے عہدمیں بنتاہے ۔شاہ جہاں کوآپ حضرت سے نہایت خصوصی اورقلبی لگاؤتھا۔اب ہم حضوروالاکے سوانحی خاکے کوواضح کرتے ہیں ۔
آپ کانام ونسب :
آپکانام: عبدالرزاق تھا۔
القابات وخطابات:
بندگی ،کاشفِ حقیقت،غواص معرفت مگرشاہ چراغ کے نام سے شہرت پائی ۔
چونکہ آپ کے داداسیدعبدالقادرالثالث حیات تھے جب آپکی ولادت ہوئی توانہوں نے فرمایاکہ:
’’درخانہ ماچراغ روشن شد‘‘
ولادت باسعادت :
آپکی ولادت شہنشاہ جہانگیرکے عہدکے ابتدائی سالوں یعنی 1013ھ یا1014ہجری میں ہوئی۔
تربیت کے ابتدائی مراحل: 
آپ نے بیک وقت اپنے خاندان کے تین بڑے مشائخ سے تربیت حاصل کی ۔سات سال کی عمرمیں بیعت تبرک اپنے جدمکرم سیدعبدالقادرالثالث سے کی۔ان کی وفات کے بعد تجدیدبیعت اپنے والدماجد سیدعبدالوہاب سے کی ۔پھراس کے بعدبیعت صحبت اپنے برادرمحترم سیدزین العابدین سے کی ۔اورتاحیات ان کی صحبت سے مشرف رہے۔
سعادت حج بیت اللہ:
آپ نے حج بیت کی سعادت بھی حاصل کی اوروہاں کبارمشائیخ سے فیوض وبرکات حاصل کیں۔
سیروسیاحت:
حضوربالاپیرؒ کے بعد آپ نے سیروسیاحت میں خاصااہم مقام پایا۔کئی متعددبارسفرحج بھی فرمایا۔
ازواج واولاد:
آپ کی ایک ہی شادی ہوئی سیدہ کانام بی بی جمال زہرہ بنت سیدرحمت اللہ بن سیدمیرمیراں بن سیدمبارک حقانی بن سید محمدغوث اچوی حلبی تھا۔ان سیدہ کے بطن سے سات صاحبزادے اوردو صاحبزادیاں پیداہوئیں۔صاحبزادگان کے نام سیدنورمحمدغائب (یہ لاولدتھے) سیدمصطفی ٗسیداسماعیل ٗسیدمحمود سیدعبداللہ ٗسیدشمس الدین اور سیدنصراللہ یہ چھے صاحبزادے صاحب اولادہوئے۔
شہنشاہ شاہ جہان کی عقیدت مندی:
شاہ جہان آپ سے خاص عقیدت رکھتاتھااورآپ کے ہاں اکثر حاضری دیتا۔اسی عقیدت مندی کی بناپروہ آپ کے کسی صاحبزادے کے نکاح میں اپنی شہزادی کودیناچاہتاتھا۔مگر آپ نے اس بات کوپسند نافرمایاشاید اس وجہ سے کہ فقیراوربادشاہ کاکیاجوڑ۔چنانچہ چنددن بعد وہ شہزادی رحلت کرگئی۔اس کے بعد بادشاہ نے سلطان پورریاست قپورتھلامیں موجود ایک جاگیرآپ کی نظرکی جسے آپ نے قبول فرمالیااوربادشاہ کودعائے خیروبرکت دی ۔یہ جاگیربعد میں آپ کے صاحبزادگان کے استعمال میں رہی ۔آپ کے کئی پڑپوتوں کی مزارات اب تک وہیں پرہیں۔ 
شہرت ومقبولیت:
آپ نہایت کامل درویش تھے۔اوربہت زیادہ شہرت اورمقبولیت کے مالک تھے۔جہاں لاہور اوراس کے ارد گرد کے علاقوں کے لاکھوں انسانوں کی آواز تھی وہاں آپ بادشاہوں کے دربارمیں بھی نہایت باعزت اوراعلی درجے کے مالک تھے۔عوام وخواص سب آپ کی بزرگی کے قائل اورآپ کی دیوانے تھے۔
(اس زمانہ میں تین شخصیات اوربھی ہوئیں جونہایت ہی دلچسپ تھیں ۔دوتوشاہ جہاں کے بیٹے شہزادہ داراشکوہ اورشہزادہ (اورنگ زیب)محی الدین عالمگیر :۔
شیخ محمد اکرم رودکوثر میں رقمطرازہیں ‘‘
’’اور انکی طبیعتوں میں بُعد المشرقین تھا۔ دارا شکوہ ،اورنگزیب دونوں مذہب میں دلچسپی لیتے تھے، لیکن ان کے مذہب میں زمین و آسمان کا فرق تھا، دارا شکوہ آزاد خیال صوفیوں کا پیرو تھا ۔۔۔اور اورنگزیب متشرع بلکہ متشدد علماء کا۔ ‘‘
داراشکوہ شہنشاہ کی پہلی نرینہ اولادتھا۔اس سے پہلے بیٹیاں ہی پیداہوتی تھیں ۔یہ سید اجمیرؒ کے خصوصی تصرف سے۔،جب وہاں بادشاہ نے منت مانی۔۳۰مارچ ۱۶۱۵ء کوپیداہوا۔اسے صوفیاء سے خصوصی لگاؤتھا۔حضرت ملابدخشی کی بیعت کی اورپہلے صوفیاء کے احوال پرایک کتاب ’’سفینۃالاولیا‘‘تصنیف کی اسکاسن تکمیل ۱۶۴۰ء ہے۔اسکے بعدحضرت میاں میرؒ کے احوال پرسکینۃاولیاء مکمل کی ۔خودبھی وجودی مسلک کااعلیٰ شاعرتھا۔قادری تخلص کرتاتھا۔شعرملاحظہ ہو۔
؂ ہرخم پیچے کہ شدازتاب زلف یاراست
دام شد،تسبیح شد، زنجیرشد ، زنارشد
اس سے مفر نہیں کہ اب تک مغلیہ شاہوں نے سوائے سلطنت بڑھانے اورباغات اورقلعے تعمیرکرنے یاتاج محل سجانے کے علاوہ کچھ علمی خدمات سرانجام نہیں دیں۔
یہ پہلے دوشہزادے ہیں جنہوں نے بالترتیب تصوف وطریقت اورفقہ وشریعت پرعلمی کام بھی چھوڑااورسختی سے عمل پربھی زوردیا۔
رسالہ حق نما،سفینۃالاولیاء،فتاوی عالمگیری اس دورکی یادیں ہیں اوراسکے علاوہ بھی بے شمار۔
تیسری اوراہم شخصیت ایک نانگاسرمدہے (سعیدائے مدبر)جویہودی الاصل تھامگرمشرف بااسلام ہوکریہاں ہندوستان آیااورآتے ہی ایک ہندولڑکے ابھے چند کودیکھتے ہی خودرفتہ ہوگیا۔ننگاہوکرسرمستی میں پھرنے لگا۔
اسی کاشعرہے:
نمی دانم درایں چرخ کہن دیر
خدائے من ابھے چنداست یاغیر
کبھی کبھی غیرمعمولی ہونابھی انسان کیلئے ایک مسلۂ بن جاتاہے غیرمعمولی انسانوں کودنیابرداشت نہیں کرتی۔ اس نانگے کی وجہ سے جواکثرعقل ودانش کی باتیں کرتا تھا اوراس کی داراشکوہ سے بھی مصاحبت تھی صوفیاکے حلقوں میں پھرایک بارہل چل مچ گئی درباراوردرباری ملاؤں میں وہی بے چینی محسوس ہونے لگی جیسی حسین بن منصورحلاج کی وجہ سے درباربغداداوراس کے امراء نے کی تھی ۔بغداد بھی مدینۃالاولیاء تھااورادھردہلی اورلاہوربھی اسی شان کے مالک تھے۔دباری علماء کوان دیوانگی سے زیادہ ان کی فرزانگی سے خوف آتاہے۔اورصوفیاء کوشکوہ تھاکہ سربستہ رازجن سے یہ واقف ہوہی گئے توان کوکھولنانہ چاہیے تھا۔
ؔ ؂ تھااناالحق ،حق مگر،منصورکویہ کہنی نہ تھی
یارکی محفل سے باہریارکی محفل کی بات
مگر سوچنے کی بات ہے کہ ایسے دیوانے ہزاروں ہیں جوبازاروں میں برسرعام جوجی میںآئے کہتے پھرتے ہیں۔مگردار۔۔۔!
صرف ان کامقدرکیوں بنی۔۔۔؟کیاکوئی اورمحرکات بھی تھے؟۔۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔عریانیت سے زیادہ سرمدکوداراکی مصاحبت لے ڈوبی ۔۔۔جس طرح بغدادمیں ابن منصورکی سرمستی کودرباری امراء کی بدمستی ‘‘حالانکہ دیوانوں سے کسی جاہ پسندکوکیابھی خطرہ ہوسکتاہے۔
سرمدکی یہ رباعی دیکھئے:
سرما بگزشت و ایں دل زار ہماں
گرما بگزشت و ایں دل زار ہماں
القصہ تمام گرم و سرد عالم
برما بگزشت و ایں دل زار ہماں
بہرحال سرمدکے سرِ دارجانے سے تصوف کے مراکزمیں ایک بے چینی کی لہردوڑگئی۔
اتباع سنت:
لاہورکے مشہورومعروف مفتی ’مفتی غلام سرورآپ کے مناقب اورمحامدکواس طرح بیان کرتے ہیں:
’’جامع بودمیان علوم ظاہری وباطنی ،شرافت ونجابت وسیادت وشجاعت وسخاوت،فرقہ ارادت وخلافت ازپدربزرگوارخودداشت‘‘۔
پرانی مسجد:
آپ کے مقبرہ کے مشرق میں آپ کے زمانے کی مسجد نہایت خستہ حال اب بھی موجودہے۔یہ مسجدآپ نے اپنی حیات میں تعمیرکرائی تھی ۔محکمہ اوقاف کواس کی آبادکاری کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔چونکہ اب یہ اوقاف کے قبضہ میں ہے اوروکلاء ہائیکورٹ کے دفاتر بھی ہیں۔
وفات حسرت آیات:
خزینۃ الاصفیاکے مطابق حضرت شاہ چراغ نے۲۲ذیقعد۱۰۶۸ھ مطابق ۱۲اگست ۱۶۵۸ء میں وفات پائی۔
مگر تذکرۃ العارفین میںآپ کے وصال کی تاریخ ۱۷ربیع الاول ۱۰۹۳ھ درج ہے۔
قطعات تاریخ وفات :
شاہ دنیاشاہ عقبی شاہ چراغ رفت چوںآواز جہاں
گشت روشن سال حیش زدل سیدحق آفتاب عارفاں (مفتی سرور لاہوریؒ )

چراغ ہردوعالم عبدرزاق چو روش گشت اندرخلداعلیٰ
عجب تاریخ وصلش جلوہ گرشد سراج الاتقیاقطب معلیٰ
جلوہ گرشددرجناں مثل چراغ چوں چراغ آںآفتاب عارفاں
گشت روشن سال ترحیلش زدل سیدحق آفتاب عا رفاں
سیدگیلاں کریم ابن الکریم ! آں چراغ خانہ دین و یقین 
عبدالرزاق ست نام نامیش بو د شاہ و سید روئی زمین 
بہرتاریخ وصال آں جناب گفت سرورؔ میرشمس العارفین
پیر غلام دستگیر نامیؔ نے تاریخ وفات یوں کہی:
شمسی تاریخ گرکوئی پوچھے کہونامی !’’چراغ تاباں ‘‘ہے

مقبرہ:
سیدمحمدلطیف نے اپنی انگریزی تالیف تاریخ لاہورمیں لکھاہے کہ آپ کامقبرہ اورنگ زیب عالمگیرکے عہدمیں انہی کے احکام سے تعمیرہوا۔مقبرہ میںآٹھ قبورہیں۔
*پہلی قطارمیں(۱)حضرت شاہ چراغ لاہوری قادری گیلانیؒ 
(۲)سیدحامدشاہ ؒ (برادرخوردؒ )
(۳)سیدزین العابدین ؒ (برادرکلاں مرشدپاک حضرت شاہ چراغ قادری)
(۴)حضرت سیدمحمد(ؒ آپ کے چچا)
*دوسری قطارمیں(۵)حضرت سیدعبدالوہاب ؒ (والدحضرت سیدشاہ چراغ گیلانی ؒ )
(۶)حضرت سیدعبدالقادرثالث ؒ (داداصاحب صاحبزادے حضرت محمدغوث عرف بالاپیرؒ )
(۷)حضرت سیدعبدالرحمنؒ ( داداصاحب کے بھا ئی) 
(۸)حضرت سیدالہٰی بخشؒ ( داداصاحب کے بھائی) 
مقبرہ مربع شکل کاپختہ چونہ گچ کی عمارت کابنایاگیاہے ۔دروازہ جنوب کی طرف کھلتاہے اوراوپرنہایت رفیع الشان گنبدہے۔گنبدکااوپرکاحصہ قدیم نقش ونگارکاایک نفیس مرقع ہے۔
تاریخ مخزن پنجاب میں اس طرح لکھاہے:
’’لاہورکے مزارات میںیہ مقبرہ بہت مشہورمکان ہے۔صاحب مقبرہ سیدگیلانی سیدمحمداچوی کی اولادمیں سے ہیں۔بزرگی اورولایت کرامت حضرت کاورثہ موروثی تھا‘‘۔
انگریزدورمیں مقبرہ میکلوڈصاحب کی کوٹھی سے مشرق میں واقِع تھا۔خزینۃ الاصفیامیں لکھاہے کہ آپ کامقبرہ شاہ جہان کے حکم سے تعمیرہوامگرمصنف تاریخ لاہوراورتحقیقات چشتی ،نیزسیدمحمدلطیف نے لکھاہے کہ مقبرہ آپ کابحکم شہنشاہ اورنگزیب عالم گیربنااوریہی درست ہے۔ہرقبر پرصاحب قبرکانام لکھاہواہے۔
مرزامحمدیٰسین مزنگ کہتے ہیں کہ مقبرہ کے متولی حضرت شاہ سردارقادری گیلانی تھے۔جوآپ کی اولاد سے تھے۔اورعلاقہ سلطان پورہ میں مقیم تھے ۔
ہم عصر مشائخ:

(۱)سیدعبدالقادرثالث قادری گیلانیؒ المشہورسیدجیون المتوفی۱۰۲۲ھ/۱۶۱۳ء
(۲)سید عبدالوہاب گیلانی (والد)متوفیٰ (۱۰۳۷ھ)
(۳)سیدجان محمدحضوری قادریؒ المتوفی ۱۰۶۴ھ/۱۶۵۴ء
(۴)خواجہ خاوندمحمودالمشہورحضرت ایشان نقشبندی المتوفی ۱۰۵۲ھ/۱۶۴۲ء
(۵)حضرت شیخ حامدؒ لاہوری نقشبندی المتوفی ۱۰۵۴ھ/۱۶۴۴ء
(۶)شاہ محمدجھولہ بخاری سہروردی المتوفی ۱۰۳۹ھ/۱۶۲۹ء
(۷)سیدشہاب الدین ؒ نہراسہروردی المتوفی ۱۰۴۱ھ/۱۶۳۱ء
(۸)سیدعبدالرزاقؒ المشہوربہ سیدمکی (نیلہ گنبد)المتوفی ۱۰۴۸ھ/۱۶۳۸ء
(۹)سیدشاہ جمال قادری سہروردی لاہوری المتوفی ۱۰۴۹ھ/۱۶۳۹ء
(۰۱)سیدمحمودالمشہورشاہ نورنگ جھولہ بخاری سہروردی المتوفی ۱۰۵۳ھ/۱۶۴۳ء
(۱۱) شیخ عارف چشتی لاہوری المتوفی ۱۰۶۴ھ/۱۶۵۴ء
شیخ عارفؒ چشتی صابری المتوفی ۱۰۷۱ھ/۱۶۶۱ء
سیدابوتراب المعروف شاہ گداحسینی قادری المتوفی ۱۰۰۱ھ/۱۶۶۱ء 
آپ کے خلفاء:
(۱)حضرت درگاہی شاہی ؒ قادری المتوفی ۱۱۲۲ھ/۱۷۱۰ء
(۲)حضرت ماہی شاہ قادری ؒ 
(۳)سیدمصطفی گیلانی بن شاہ چراغ
(۴)سیدثبوت شاہ یاصبورشاہ ان کا مزاربھی وہیں ہے۔
عرس پاک :
حضرت شاہ چراغ گیلانی کاعرس ہرسال محکمہ اوقاف کاقبضہ کرنے سے قبل نہایت تزک واحتشام سے سجادہ نشین کراتے تھے ۔عرس پررات کالنگر گیارہ سونان اورسوامن حلوہ پرمشتمل ہوتاتھا۔ اورصبح کالنگر گیارہ سوروٹیاں اورتین دیگ دال سے ہوتاتھا۔ اوریہ تمام اخراجات سجادہ نشین وقت اپنی گرہ سے اداکرتاتھا۔نیز محافظ کابھی انتظام تھا۔سجادہ نشین بعدمیں سلطان پورسے آتے تھے۔
علاوہ بریں گیارہویں کابھی ہرماہ انتظام ہوتاتھا۔ جوحضرت شاہ چراغ کے مریدین لاہورکرتے تھے ،حافظ غلام محی الدین خطیب مسجدغوثیہ نیابازاراورمرزامحمدیٰسین مزنگوی اس بڑاحصہ لیتے تھے ۔
اب بھی عرس منایا جاتا ہے ۔ مگر اس جیسی شان سے کہاں۔۔۔؟
میری نہایت مؤدبانہ استدعا ہے کہ حضرتؓ کے حالات و واقعات اور مکمل سیرت سوانح کیلئے ہماری کتاب ’’سیرت و سوانح سیدعبدالرزاق المعروف داتا شاہ چراغ لاہوری ملاحظہ ‘‘ فرمائیں ۔



Comments

  1. Sir hazrat syed data shah chrag lahori ra ki halat e zindgi pe ap k pas koi pdf books ho tu mery whatsapp nbr pe send kr dein plz

    Wh.. 03095151658

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود پاک پڑھنا چاہیے یا نہیں؟ بہت خوب صورت تحریر ضرور پڑھیں

عرس پاک سید سید محمد سائیں گیلانی القادری الشیخوی