سیرت ا لسیّد عبدالقادر جیلانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ
وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ حبیبہٖ ،رسولہٖ محمدٍ وّ علیٰ آلہٖ الطاہرین
اللہ کے احسان کاکس طرح اور کس قدر شکر ادا کروں ۔کہ اس نے اپنی لو کے ساتھ اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم،اسکی آلِ پاک سلام اللہ علیھم اور حضور غوثِ اعظم صکی محبت کے نور سے میری تاریک زندگی کو روشنی عطا فرمائی ہے۔شکر اور تعریف اس عاجز کے بس کی بات کہاں؟!۔میرا عجز تومجھے یہ دعا سکھاتا ہے۔’’یا اللہ تو نے مجھ پر جواحسان کیا ہے ،اسکو ادھورانہ رکھ،پورافرما‘‘۔۔۔اور جونعمت تو نے مجھے عطا فرمائی ہے،وہ مجھ سے واپس نہ لینا۔اور جس طرح تو نے میرا پردہ رکھا ہوا ہے ،اس کو نہ اتارنا!!۔اور میرے عیب وصواب کو توہی جانتا ہے،پس مجھے معاف فرمادے‘‘۔
***
ہوش سنبھلتے ہی لا الہ الا اللّٰہُ محمد رسول اللہ کے بعد جو دوسری آواز کان میں پڑی تھے وہ غوث اعظم شاہ جیلانیص کے نام نامی کی تھی۔جب میں بہت ہی چھوٹا تھا تب میرے پیرومرشد سید مراتب علیؒ گیلانی گیارہویں شریف کی محفل سجاتے تھے تو انکا اصرار ہوتا تھا کہ مجھے بھی ہر صورت شامل ہونا چاہیے تو ان کے فرمان کے پیش نظر میرے اساتذہ کرام مجھے کان سے پکڑ کر جگاتے اور محفل میں بیٹھا رہنے پر مجبور کر دیتے کبھی کبھی محفل میں سوبھی جاتا۔۔۔تب سے میرے لیے گیارہویں والے پیر کانام بڑاذی شان اور لائق صد احترام ہے۔یہ باتیں میرے لاشعور کا حصہ بنتی رہیں۔اب اسی لیے کبھی کبھی ۔بلکہ مسلسل اور ہمہ وقت لاشعور سے شعور میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔
اس روحانی پہلو کے علاوہ اک ظاہری وجہ بھی تھی کہ ہمارا نسبی سلسلہ حضور سیدنا محمدغوث بالا پیر ستگھرویؓ اور حضرت مخدوم بندگی محمد غوث اچوی حلبیص سے ہوتا ہوا حضرت پیران پیر دستگیر سے جا ملتا ہے۔پھر جوں جوں وقت گزرتا چلا گیا اس محبت اور عقیدت کی گانٹھیں مضبوط اور پیچیدہ ہوتی چلی گئیں۔
یہ تو میری وہ کہانی ہے کہ جس کو سنائے بغیر اگلا قدم نہیں اٹھا سکتا ۔رہی اس کتاب کی اشاعت کی بات، تو ۲۰۰۰ء میں،جب میں پنجاب یونی ورسٹی لاہور میں آخری سال کا طالب علم تھا تو وہاں پروفیسر ڈاکٹر سیدمحمد قمر علی زیدی سے نیاز مندی تھی اس نیاز مندی کا بھی یہی سبب تھا کہ آپ بذاتِ خود سلسلہ عالیہ قادریہ سے وابستہ تھے۔بس اسی نسبت سے یہ بندھن مضبوط ہوگیا۔میں اکثر کلاس کے اختتام پر آنجناب کے کمرہ میں چلا جاتا وہ بہت شفقت فرماتے کبھی کبھی اپنے ساتھ گھر تک بھی لے جاتے(خالد بن ولید ہال کی سرکاری عمارت میں مقیم تھے)۔
ایک دن پیریڈ ختم ہوا تو مجھے فرمانے لگے شاہ جی!ذرا کلاس کے بعد مجھے ملتے جانا۔۔۔جب میں حاضرہوا تو کچھ مصروف تھے۔دیکھتے ہی بولے یار آج نہیں کل سہی۔دوسرے دن پھر حاضر ہوا۔۔۔تو کہا کہ تم سے ایک ضروری کام ہے مگر آج نہیں ہوسکتا۔تیسرے دن حاضر ہواتو کہا ۔۔۔بیٹھو !!۔میں بیٹھ گیا۔جب سبھی مہمان چلے گئے اور ہاسٹل کے ضروری امور طے کر کے فارغ ہوئے تو کاغذات کے پلندے سے ایک نہایت باریک اور چھوٹے سائز کی کتاب اٹھائی اور فی الفوربولے ۔جاؤاسے فوٹو سٹیٹ کروا لاؤ۔میں چپ چاپ چل دیا۔جب واپس آیا۔۔۔ تو کہا۔۔۔ اس فوٹوسٹیٹ نسخہ کو لے جاؤ اور رات بھر مطالعہ کرو۔۔۔پھر بات کریں گے۔
میں نے گھر پہنچ کر جب مطالعہ شروع کیا تو کتاب کی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ پڑھ کر ہی دم لیا۔
الگے دن ملاقات ہوئی تو خود ہی پوچھا ۔بھئی شاہ جی کتاب کیسی لگی؟میں نے عرض کیا سبحان اللہ !تو فرمانے لگے یہ ایک نہایت اعلی کتاب ہے اور کمیاب ونایاب بھی ہے۔میں اس سے متاثر ہوا ہوں۔۔۔اسکو شائع ہوناچاہیے۔تم اس کو شائع کرو اور اللہ تعالیٰ تمہیں اجر خیر دے گا۔
میں اپنا تعلیمی دور پورا کر کے واپس آگیا۔اُف اللہ !!۔یہ کتاب کہیں کاغذات کے پلندے میں دب گئی ۲سال بعد اچانک نظر پڑی تو سارے گزشتہ مناظر آنکھوں میں گھوم گئے اور آنکھیں پُر نم ہو گئیں۔
خیر اسکی اشاعت کا تہیہ تو شروع سے ہی کررکھا تھا۔لہذااس پہ کام شروع کردیا گیا۔
احقر نے آنجناب السیدعبدالقادر جیلانی کی سیرت پہ بے شمار کتب کا حسب مقدورمطالعہ کیا۔چونکہ آنجناب کی ذات والا صفات پراتنا کچھ لکھا گیا ہے کہ شاید ہی کسی ہستی کے حصہ میں یہ سعادت آئی ہو۔یوں کہنا چاہیے کہ ہر دور کے مفسرین ومحدثین ،ائمہ فن،صوفیہ،مؤرخین ومصنفین علماء نے آپ کی سیرت پر لکھنا اپنی خوش قسمتی سمجھا۔
سو اس طرح تاریخ میں ایک وافر حصہ اسلام کے اس بطل عظیم کے نام کیاگیاہے۔مگر میں نے اس کتاب کو باربار پڑھا، سمجھا،ہر دفعہ معلومات کا ایک نیا خزانہ اور روحانی تسکین کا ایک وافر حصہ پایا۔ شاید جومیں لفظوں میں وہ بیان نہ کر سکوں۔قارئین خود محسوس کریں گے۔
موصوف حکیم غلام حیدر سہیل صاحب (مصنف)کا اسلوب بیان اتنا اچھوتااور دلنشین ہے کہ ہر ہر حرف دل میں اترتا چلا جاتا ہے اور واقعات اگرچہ افسانوی انداز میں لکھے گئے مگر نہایت مستند ہیں۔جو مدعا کوئی صفحات درصفحات لکھ کر بھی نہیں کہہ پاتا وہ بڑی سادگی سے صرف چند لفظوں میں کہہ جاتے ہیں۔
منتظر نگاری کا انداز بے حد انوکھا اور منفرد ہے اور پھر تاریخ کے کئی کٹھن موڑ اور تصوف کے پیچیدہ مراحل انہوں نے نہایت چابکدستی اور مہارت سے سرانجام دیے ہیں۔
عرصہ دراز سے سلسلہ عالیہ قادریہ شیخوشریف کے مرید ین ومتعلقین کے لیے انکے شیخ (سید عبدالقادر جیلانی)کی کسی ایسی ہی سوانح حیات کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی تھی جوکہ الحمد للہ حکیم صاحب کی تصنیف کی صورت میں میسر آئی۔
اس کتاب کی تالیف کی سعادت حکیم غلام حیدر سہیلؒ کو۔۔۔اوراشاعت کی بشیراحمد چوہدری ڈائریکٹر مکتبہ میری لائبریری لاہور‘‘کو حاصل ہے۔فوٹو کاپی کے مندرجات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب دوبارشائع ہوئی ۱۹۶۳ ؁ء اور ۱۹۸۶ ؁ء میں اور دونوں بار مکتبہ لائبریری لاہور نے ہی شائع کی۔
کتاب کی مقبولیت اور دلنوازی اس بات کی متقاضی تھی کہ اس کو دوبارہ شائع کیا جائے۔اس سلسلے میں متعدد بار بشیر احمد چوہدری ،حکیم صاحب کو تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔لیکن کامیابی نہ ہوسکی۔ادھر احقر کے جذب وشوق کا یہ عالم تھا کہ یہ کتاب تیسری بار ضرور شائع ہونی چاہیے یا کسی طرح ہمیں شائع کرنے کی اجازت حاصل ہوجائے۔اس تگ ودو میں تین سال بیت گئے ۔ اور کسی بھی متعلقہ مطلوبہ فرد تک رسائی حاصل نہ ہوسکی۔
اب عمر عزیز کی ناپائیداری اور جذب وشوق کی آبیاری سے مجبور ہوکر کتاب کو شائع کرنے کا عزم صمیم کر لیا ہے۔اور ہمارے اس ارادہ میں جلب منفعت، حصول زر کی کوئی آلائش نہیں!!۔صرف اور صرف آخرت کے اجر خیر کی طلب ضرور ہے اور حضور غوث الثقلین صکی ارادت کا حق اس احقر ،کمتر کو مہمیز کر رہا ہے کہ حکیم صاحب کی یہ سعئ نافع مشاقانِ جمال غوث اعظمص تک پہنچتی رہنی چاہیے۔
لہذا ’’ادارہ صوتِ ہادی‘‘اس اشاعت کی جسارت پر معذرت کے ساتھ مزید عرض پرداز ہے کہ اگر کسی مستحق شخصیت تک یہ کتاب پہنچے تو برائے مہربانی وہ صاحب ادارہ سے رابطہ ضرور کرے۔۔۔فی الحال یہ کتاب کسی اضافہ یا ترمیم کے بغیر من وعن انہی مندرجات کے مطابق شائع کی جارہی ہے۔خواہش تھی کہ مؤلف اور اول ناشر کے حالات اگر میسر آتے تو وہ بھی اس اشاعت میں شامل کردئے جاتے۔اب تو صرف اتنا ہے کہ ہم حکیم صاحب اور ناشرِ اوّل بشیر احمد چوہدری اور دیگر معاونین کی دنیا وآخرت کی بھلائی کے لیے دعا ئے خیر کرتے ہیں۔
اب جب اس کتاب کا مسودہ بالکل تیار تھا تو ایک مشکل مرحلہ آن درپیش ہواکہ چند احباب خصوصاً پروفیسر محمدافتخار شفیع صاحب ومحمد شاہ گھگہ اور جناب اعجاز ملک قادری نے فرمائش کی کہ میں اس کا حاشیہ لکھوں ۔اب تک تو یہ بات میرے مان وگمان میں بھی نہیں تھی کہ ایسا بھی ہوگا۔مگر انکااس بات پر اصرار بڑھتا ہی گیا۔
اللہ !ادھر حضور غوث السلام والمسلمین کی سیرت اور اس پر حکیم صاحب کی علمی قدوقامت اور ٹھاٹھ باٹھ۔۔۔اورادھر میں ۔۔۔ بالکل ہی تہی دامن اور کوتاہ علم وفہم۔۔۔ فی الوقت تو کام کے لیے تیار نہ ہوسکا۔مگر کاتب تقدیر شاید یہ حصہ میرے نام لکھ چکا تھا۔حضور غوث الثقلین کی ادنیٰ سے توجہ کے باعث یہ کٹھن مرحلہ بھی طے ہوا۔۔۔ الحمدللہ۔
اگرچہ یہ حاشیہ حکیم صاحب کی کتاب کے سامنے سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔اور مجھے اپنی کم علمی کا پورا پورا اعتراف ہے لیکن فخر اس بات کا ہے کہ ناچیز کا نام بھی حضور غوث الاعظم کے غلاموں کی فہرست میں آگیا۔ ؂
یہ ناز ہے کہ تیری آرزو میں جیتے ہیں
یہ فخر ہے کہ تیری ذات سے تعلق ہے
بس یہ سوچ کہ جوبن آیا۔ لکھ دیا۔حضور کی بارگاہ میں قبول ہوجائے تو میرے لیے دنیا ودارین کی یہی سعادت ہوگی۔
***
کتاب کا نام ’’سیرت شیخ عبدالقادر‘‘تھا۔میں نے اسی نسبت سے حاشیہ کا نام ’’انیس المظاہر فی سیرت عبدالقادر ‘‘تجویر کیا ہے۔قارئین سے میری گزارش ہے کہ وہ پہلے اصل کتاب کو مطاخطہ فرمائیں۔بار بار پڑھیں۔انشاء اللہ کافی وشافی پائیں۔بعد میں حاشیہ ملاخطہ کریں۔اور اسی وجہ سے حاشیہ کو عام اسلوب سے ہٹ کر آخر میں نقل کیا گیا ہے۔ورنہ حاشیہ کاحق تو کتاب کے صفحہ بہ صفحہ آنے کا تھا۔میں قطعاًبھی نہیں چاہتا کہ کتا ب کا متن ،حاشیہ کے ساتھ گڈمڈ ہو جائے۔
حوالہ جات کا زیادہ اہتمام نہیں کیا گیا۔۔۔اس لیے کہ تمام مأخذات آخر میں تفصیل کیساتھ دیے ہیں۔جہاں بہت ضرورت تھی وہاں حوالہ جات لکھ دیے گئے ۔وہ زیادہ تر احادیث مبارکہ کے ہیں۔حوالہ جات عموماً دو قسم کے ہوتے ہیں۔ایک لفظی دوسرا معنوی۔
چونکہ بعض اوقات حوالہ کا تعلق من وعن الفاظ سے ہوتا ہے۔اور بعض اوقات ایک مکمل تصنیف مطالعہ کرنے کے بعد جوتاثر ابھرتا ہے وہ بھی نقل کرنا پڑتا ہے ۔اور اس کا حوالہ دینا مشکل ہوتا ہے۔اسی لیے مأخذات کی فہرست دینا ہی مناسب سمجھی۔
اہل علم وفن اس راہ پر چلنے والے کی مشکلات کا اندازہ کر سکتے ہیں۔جب کہ کئیوں کے لیے صرف اور صرف غلطیاں نوٹ کرنا اور نکتہ چینیاں کرنا ہی مشغلہ ہوتا ہے۔ہاں اگر کوئی صاحب اس میں کسی جگہ کوئی کمی بیشی محسوس کرے تو اسکا حق ہے کہ احقر کو تحریر ی طور پر مطلع ضرور کرے تاکہ آئیندہ اس کا ازالہ کیا جا سکے۔
پھر قارئین کی آسانی کے لیے حاشیہ کے اشاریہ کا اہتمام بھی کیا گیا ہے تاکہ کوئی بھی موضوع تلاش کرنے میں آسانی رہے۔
***
شیخو شریف شہروں کے شور اور شر سے دور ایک بستی ہے۔جو ضلع اوکاڑہ ،ساہیوال ،فیصل آباد اور شیخو پورہ کی حدود کے درمیان واقع ہے۔اگرچہ انتظامی لحاظ سے ڈسٹرکٹ اوکاڑہ کے ذیل میں آتی ہے۔جسکو ۱۷۵۷ء میں سادات گیلانیہ کے ایک چشم وچراغ سید حسن بخش المعروف داتا حسنین سائیں بن سید سلطان الفقر آء امام حیدر بخش نے شرف اقامت بخشا۔ یہ ایک کھرل رئیس شیخو خان بن نواب چاوہ خان وجھیرہ کھرل کی رہائش گاہ تھی۔اسکا نام ’’چاہ توتاں والا‘‘تھا مگر مخلص مرید پر اپنے پیر کی خصوصی شفقت کے باعث اسکا نام شیخوشریف پڑگیا۔آنجناب کی ساری اولاد یہیں مقیم ہے ۔حالات بدلتے رہتے ہیں،اور جب زمانہ نئی کروٹیں لیتا ہے تو کئی ایک اس میں جا اور بے جا اس میں ابھرنے لگتی ہیں جو کبھی کبھارماضی اور مستقبل کو فراموش کر دیتی ہیں۔نائلہ واساف کی جوکبھی معتوب زمانہ تھے۔۔۔،محبوب یگانہ نظر آنے لگ جاتے ہیں۔
خیر۔۔۔بس دعا ہے کہ اسکا نام قیامت تک شرافت کے ساتھ ہی قائم رہے اور یہ کبھی بھی حوادثات زمانہ کی نذر نہ ہو اور نہ ہی اسکی عظمت صداقت امتدار زمانہ کی دھول میں گم ہوجائے۔
آخر میں اپنے قبلہ وکعبہ والدِ گرامی سید افضال حسین کا ممنون احسان ہوں جو ہر موڑ پر میری راہنمائی کے ساتھ ساتھ حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں ۔سارا فیض تو انہی کی نظر کا ہے۔
اور اپنے احباب میں خصوصاً برادم قبلہ پیر طاہر حسین الحنفی القادری،جنکا روحانی اور عملی تعاون مجھے ہمہ وقت میسر رہتا ہے۔خصوصاً حوالہ جات کی پیچیدگیوں کا مرحلہ انہی کی توجہ سے سر ہوا۔اور انکو ’’وہ عہد پیماں‘‘ اور اپنے والد گرامی خواہش مسعود بھی یا د دلاتا ہوں۔میری طرف سے یہ بارش کا پہلا قطرہ سمجھیں ۔اور میں انکے کرم کی موسلا دھار بارش کا منتظر ہوں۔
اس کے بعد اپنے مشفق ومہربان دوست پروفیسر افتخار شفیع ۔۔۔جومیرے لیے افتخار ہی نہیں بلکہ باعث صدافتخار ہیں۔میں اگر کچھ مبالغے سے بھی کہوں تب بھی انکے لطف واحسان کے سامنے میرے الفاظ کم پڑجائیں گے۔انہوں نے قدم بہ قدم اپنی بہترین آراء سے نوازااور کتاب کی تزئین وآراش تک میرا ساتھ دیا۔انکے لیے فیض کے بحرزخار جناب غوثیت مآب کے خصوصی کرم کا طالب ہوں۔
اور برادرم پیر رفاقت علی شاہ صاحب اورانکی وساطت سے جناب افتخار احمد حافظ قادری کا بے حد احسان مند ہوں جنہوں نے 
راقم کی حوصلہ افزائی کے لیے سطور دائم الظہور رقم فرمائیں جو میرے لیے یقیناًاک خصوصی حظ اور تسکین کا درجہ رکھتی ہیں۔اللہ تعالیٰ حضور غوث اعظم کے طفیل انکے درجات بلند فرمائے۔اعلیحضرت بریلوی کے اس شعر پہ اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ ؂
اس نشانی کے جو سگ ہیں نہیں مارے جاتے
تاحشر میرے گلے میں رہے پٹہ تیرا
***

درگاہ غوثیت مآب کا ادنی خاکروب
سید سیْد علی ثانی جیلانی
ساہیوال ۱۱ ربیع الثانی ۱۴۳۲ھ 


Comments

Popular posts from this blog

سیرت سوانح سید عبدالرزاق المعروف داتا شاہ چراغ لاہوریؒ

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود پاک پڑھنا چاہیے یا نہیں؟ بہت خوب صورت تحریر ضرور پڑھیں

عرس پاک سید سید محمد سائیں گیلانی القادری الشیخوی