مراتب اختر کی شاعری کا مصورانہ آہنگ: ڈاکٹر محمد افتخار شفیع


مراتب اختر کی شاعری کامصورانہ آہنگ 
ڈاکٹر محمد افتخار شفیع *
مسکرا کے کہتاہے مصورسے وہ غارت گرہوش
جیسی صورت ہے مری ویسی ہی تصویربھی ہو
(ہادی رسوا) 
شاعری ایک بولتی تصویراورتصویر، بے صداشاعری ہے۔دونوں فنون کاتعلق ماقبل تاریخ کے دھندلکوں میں ملفوف ہے۔قدیم معا شرورں میں شاعری اورمصوری کے باہمی اثرونفوذ کاسلسلہ موجودتھا۔اُردومیں غالب، فارسی میں خیام اورانگریزی میں کیٹس کی شاعری تمثالوں کی شکل میں تصویری نوعیت کے ساتھ ابھرتی ہے۔مغربی ادب کی وساطت سے اُردوشاعری پرمصوری کی جدیدتحریکوں کے اثرات بھی مرتب ہوئے۔یہ تحریکیں،منطق کوایک قابل عمل شے تسلیم کرنے کے فلسفے کی نفی تھیں۔ان کے وابستگان کے خیال میں ہرشے احمقانہ اندازمیں وجودپذیرہوئی ہے۔بنیادی طورپریہ فن سے زیادہ فن سے بے زاری کی حامل تحریکیں سمجھی گئیں۔۲۲،۱۹۲۱ء میں ڈاڈاازم کے رد عمل میں سرئیل ازم وجودمیں آئی،جب آندرے بریتاں اوراس کے ہم خیال فرانسیسی ادیب ڈاڈاازم سے علیحدہ ہوئے۔لیکن کیاکریں جب عقل خواب دیکھتی ہے توپیداہونے والے بچے بھی عجیب الخلقت ہوتے ہیں، سوان رجحانات کامصوری کی طرح شاعری میں اظہاربھی مشکل ہوا۔
پروفیسرنظیرصدیقی اس بات پہ خوش تھے کہ اردوادب پراس طرح کی تحریکوں کااثرنہیں پڑا۔ان کی یہ خوشی اس وقت عارضی ثابت ہوئی جب میراجی اورافتخارجالب وغیرہ کی نظموں کی 


* فقیر خانقاہ غوثیہ ، خادم (مدیر اعزازی) إدارہ صوت ہادی ، شیخو شریف۔

قرأت کی گئی۔ڈاکٹرتبسم کاشمیری کے خیال میں:
’’فرانس کی ایک تحریک سریل ازم سے بھی میراجی خاصے متاثرہوئے۔میراجی کے ہاں آزادتلازم اسی تحریک کانتیجہ ہیں‘‘ ۱؂
اس سلسلے میں میراجی کی ایک نظم کااقتباس دیکھیں:
کچھ اس انداز سے اک تان لگاتاہے کہ لقمان ہی یادآتاہے
جب میں یہ کہتاہوں،
وہ پوچھتی ہے۔
کوئی پوچھے توبھلاتان کولقمان سے کیانسبت ہے 
اورمیں کہتاہوں لقمان کو
۔۔۔لقمان کو۔۔۔یا تان۔۔۔رہنے دوچلواورکوئی بات کریں۔ ۲؂

بیسویں صدی کی فکری تشکیل میں سائنسی نظریات کے ساتھ ساتھ کارل مارکس سگمنڈفرائڈاورژاں پال سارترکے افکارکاعمل دخل بھی تھا۔اس لیے انسان کی نفسیاتی اورسماجی پیچیدگیوں کوسمجھنے کے لیے ان تحریکات کے اثرات کاہرزبان وادب پرپڑنافطری تھا۔بڑی شاعری چوں کہ خلامیں تخلیق نہیں ہوتی اس لیے ہمارے عہدکے اکثرشعرا نے جدت کی پیروی میں بھول بھلیوں کواپنامقدربنالیاہے۔ان کے ہاں ماچس کی تیلیاں،بیدمجنوں بنتے یکایک کسی دوشیزہ کادست حنائی بن جاتی ہیں۔پورے ادبی منظرنامے میں کہیں کہیں اورراول پنڈی امیجسٹ اسکول میں اکثر،اشعارتخلیقی شان کھوکرکرافٹنگ کی مددسے امیجز کی کٹی پھٹی اشکال میں ڈھل جاتے ہیں۔ہمارے شعرا ہرلمحہ خیالوں اورخوابوں کی آہنی صلیب پرآویزاں رہتے ہیں۔بے رنگ لینڈاسکیپ میں عورتوں کے سنگی مجسمے،فرائڈبغاوت ،امیجز کا آزادانہ تلازمہ ،سستی رومانویت، ادھوری جدیدیت اورعشق کے فقط ارضی حوالے ہی شاعری کی بنیادٹھہرتے ہیں۔
اُردوزبان وادب کامزاج بھی برصغیرکی اسفنجی تہذیب کی طرح ہے جوہرنئے آنے والے رحجانات کوفطری طورپرخودمیں جذب کرلیتاہے۔ اس لیے اُردوشعراکے ہاں کسی تحریک کے اثرات نہ ہونے کے باوجودمصورانہ نقوش شعوری اورغیرشعوری دونوں سطحوں پرنمودارہوتے ہیں۔ مراتب اخترشعراکی اسی کھیپ کے نسبتاًاہم شاعرہیں۔

مراتب اخترکی غزلیں جنہیں مجیدامجدنے ’’نظمینے‘‘قراردیاتھا۔اس بات کی گواہ ہیں کہ وہ اپناتخلیقی رس اردگردبکھرے ان مناظرسے(۳) کشید کرتے ہیں جواہل نظرکے نزدیک قدرے غیراہم ہوتے ہیں۔مراتب اخترکی اکثرشعری تصاویروان گاف ،گوگین اورٹولوزلاترے کی مصوری کے فن پارے محسوس ہوتی ہیں جن کی نوعیت واقعاتی ارمعروضی ہونے کی بجائے تخلیقی ہے۔ان کے شعری لینڈسکیپ قدرے غیرقدرتی مگرخوش نماہیں۔وہ اپنے مشاہدات کواردوکی شعری روایت سے مکمل انحراف کے ساتھ خودساختہ فلسفے کی پتلی سی تہ چڑھاکرتخلیقی چاک پرابھارتے ہیں۔اپنے اولین شعری مجموعے’’جنگل سے پرے سورج‘‘میں اس نقطہ نظرکی وضاحت کرتے ہوئے مراتب اخترکہتے ہیں:
’’میری گلی کے موڑپرجوکچے کوٹھے ہیں۔ان کے چوبی زینوں کاجنگلہ آسمان تک جاتاہے۔شایدیہ تنکاجوسڑک پرپڑاہے۔تڑپ کرساری دھرتی کو ہلا سکتاہے‘‘۔ ۴؂
مراتب اخترکے خیالات تصویری شکلوں میں واردہوتے ہیں۔خوبصورت رنگوں کی یہ پکچرگیلری جومراتب اخترکی تخلیق کردہ شعری تمثالوں سے سجی ہے، اپنے جلومیں ہرطرح کے منظررکھتی ہے۔یوں لگتاہے کہ جیسے تخلیقی عمل کے دوران متحرک اورچلتی پھرتی شبیہوں سے زیادہ رکے ہوئے مناظرانہیں اپنی جانب کھینچتے ہیں۔تخیل اورمحاکات دونوں شاعری کے اجزا ہیں۔ مناظرقدرت محاکات میں شامل ہیں۔ان کاتعلق تخیل کے جان دارہونے سے زیادہ لفظوں اور منجمد تصویروں کوزندہ اورمجسم روپ عطاکرنے سے ہے۔مراتب اخترلفظوں سے زیادہ تصویروں میں سوچتے ہیں۔چندمثالیں دیکھیں:
کالج سے گھر کو لوٹ رہا ہے وہ بے وفا

اک پھول زلف ناز میں ٗ اک ہاتھ میں کتاب
۔۔۔۔۔۔
اڑتے ہوئے پرندے ہری بھری جھلیں
تکیے پر یہ منظر کس نے کاڑھا ہے
۔۔۔۔۔۔
طوفان کو ترستی ہے ، طوفاں کے با وجود
تصویر پر رکی ہوئی اک بدنصیب ناؤ
۔۔۔۔۔۔
دل میں سجاؤں گا تیری تصویر کا فریم
اک صد بہار یاد کی خوش رنگ کِیل سے
۔۔۔۔۔۔
وا کھڑکیوں کے چہروں پہ پردے دبیز تھے
کمرہ جدید شہر کے منظر سے کٹ گیا
۔۔۔۔۔۔
پھولوں بھرے نشیب پر برفوں بھرے فراز
یہ بادلوں کی چھاؤں یہ منظر سفر میں ہے
۔۔۔۔۔۔
اک تصویر کو خلق کیا دو شکلوں میں
اک کاغذ جو دو حصوں میں پھاڑا ہے
فطرت کے تمام بڑے عناصربھی تخلیق عمل کے دوران مراتب اخترکے شریک سفرہوتے ہیں۔سورج ہی کودیکھیں یہ کتنے عرصے کے بعداردو شاعری کاموضوع بنا۔برصغیرکے باشندے توویسے ہی سورج سے خائف دکھائی دیتے ہیں۔یہاں مجھے ایک واقعہ یادآگیا۔کسی نے رابندرناتھ ٹیگور سے پوچھا’’تم میں سے کوئی بھی برصغیرکے آتشیں سورج کواپنے فن کاموضوع نہیں بناتا؟ٹیگورنے جواب دیادراصل ہم ہندوستان کے باشندے مسکراہٹ سے بہت دورہیں اوراپنی روحوں میں عموماًتاریکی لے کرچلتے ہیں۔اس لیے اکثرسورج کوبھی دیکھ نہیں پاتے‘‘انیسویں صدی کے نصف میں غالب کاخورشیدجہاں تاب چوں کہ اقبال کے مشرک سے طلوع ہوتے سورج سے بدل چکاتھا۔اس لیے قیام پاکستان کے بعد مارشل لائی ادوارکے خلاف مزاحمت میں اسے ایک اہم علامت بننے میں دیرنہ لگی ۔مراتب اختر نے چڑھتے سورج کی پوجاکی بجائے دھند لکوں کو قبول کیااورسورج کومظاہرفطرت کااہم حوالہ بنایا۔لگتاہے یہ ’’پرومیتھیس ‘‘ہی تھاجس نے ایک آگ سی مراتب کے وجودمیں بھردی تھی۔ان کے نزدیک سورج جمالیات کااستعارہ ہے۔
پہاڑیوں میں گھنے پیڑ کے پرے سورج 
چھپا تو چونک کے میں نے کہا ’’ارے سورج؟‘‘
رہِ شب پر یونہی دو ہم سفر قدموں کی چاپ ابھری
اندھیروں کی گپھا سے بدگمان سورج نکل آیا
اسی طرح مشرق میں چاندکوبراہ راست دیکھنے کی بجائے پانی سے لبالب پیالے میں عکس ریز کرکے دیکھنے کی روایت موجود ہے،لیکن مولانا روم ؒ کے مرشدگرامی شمس الدین تبریزیؒ نے اوحدالدین کرمانیؒ کوبراہ راست چاندکانظارہ کرنے کامشورہ کچھ اس انداز میں دیاتھاکہ ’’میاں! اگرگردن میں کجی نہیں توبراہ راست مشاہدہ کیاکرو‘‘۔یہاں ڈاکٹرتحسین فراقی کی اس بات سے اتفاق زیادہ جمال آگیں ہے کہ جوکہ۔حسن چاند کوپانی میں عکس ریز کرکے دیکھنے میں ہے وہ براہ راست نظارے میں کہاں۔مراتب اختر کے ہاں اسی موضوع پربالواسطہ اوربلاواسطہ دونوں انداز دیکھیں:
چاند ابھرا تو کھوئی ہوئی راتوں کے مناظر
اک جھیل کے آئینہ سیال سے ابھرے 
۔۔۔۔۔۔
سو چاند ہیں ہوا فصیلوں کے اس طرف
پر تولتی خفیف سی اک زندگی ادھر
ان تمام معروضات کایہ مطلب ہرگزنہیں کہ مراتب اخترصرف مصوری کی ان تحریکوں ہی سے متاثرہیں۔مراتب اخترکی شاعری میں سے ایسی بے شمار مثالیں دستیاب ہوسکتی ہیں جوان کے ہمہ جہت شاعر ہونے کی دلیل ہیں چنداشعارملاحظہ ہوں:

کس قدر تیز ہوا چلنے لگی ہے باہر
بند کر دو یہ دریچے ، مرے پاس آبیٹھو
۔۔۔۔۔۔
ٹیبل کے اردگرد کی ہر سانس چونک اٹھی
میں بات کر رہا تھا کسی خوش اصول کی
۔۔۔۔۔۔
اے تھکے ماندے ، پسینے سے شرابور بدن
تو نے کل پھر اسی روداد کو دہرانا ہے
۔۔۔۔۔۔
عجب وہ ساعت پرواز تھی کہ جب مجھ کو
زمین دور لگی ، آسماں قریب لگا
پھر ان کراہتے ہوئے سایوں کے دیس میں
کس نے دبی زباں سے کہا ، اجنبی ! ادھر
۔۔۔۔۔۔
پیکر سے خاک جھاڑ کے دوڑوں گا تیری سمت
گھنٹی جونہی بجے گی ابد کے سکول کی
۔۔۔۔۔۔
یہ حقیقت ہے کہ شاعری ایک پیچیدہ راستے پر،انفرادی اوراجتماعی شعورکی آڑی ترچھی لکیریں کھینچے چلے جانے کانام ہے اورمراتب اختر اس راستے پرچلنے والے تنہامسافرہیں۔
حوالہ جات
۱۔اکرم سعید،پروفیسر،ڈاڈاازم اورسریلزم کے اردوادب پراثرات،مشمولہ سہ ماہی ہم عصر،لاہور،شمارہ۴،ص۵۱
۲۔میراجی ،کلیات میراجی،لاہور،سنگ میل پبلی کیشنز،۲۰۰۶ء،ص۳۱۵
۳۔مجیدامجد،مراتب اخترکی شاعری،مشمولہ حصارحال،ساہیوال،ادارہ صوت ہادی ،۲۰۰۲ء،ص۸
۴۔مراتب اختر،جنگل سے پرے سورج،ساہیوال،ادارہ صوت ہادی ،۲۰۰۴ء،ص۱۲
***

Comments

Popular posts from this blog

سیرت سوانح سید عبدالرزاق المعروف داتا شاہ چراغ لاہوریؒ

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود پاک پڑھنا چاہیے یا نہیں؟ بہت خوب صورت تحریر ضرور پڑھیں

عرس پاک سید سید محمد سائیں گیلانی القادری الشیخوی