ادارہ صوت ہادی شیخوشریف سے شائع ہونے والا سہ ماہی صوت ہادی کا شمارہ،ضرور پڑھیں۔

نقش اوّل


انی سیّونی ! میں کتدی کتدی ہُٹی
اُتن دے وچ گوہڑے رلدے ، ہتھ وچ رہ گئی وُٹی
سارے ورھے وچ چھلی اک کَتی ،کاگ مریندا جھٹی
سیجے آواں،کنت نہ بھاواں،کائی وگ گئی قلم اُپٹھی
بھلا بھیا ، میرا چرخا بھنا ، میری جند عذابوں چھُٹی
کہے حسین فقیر سائیں دا ، سبھ دنیا جاندی وُٹھی
(راگ کاہنڑا:شاہ حسینؒ )
زندگی کے غم والم دائمی ہیں۔اس وجودی صورت حال میں ’’دشنام موزوں کودعائے ناموزوں اوررخت کے پارہ کرنے سے تقطیع شعرکوخوش تر‘‘سمجھناضروری ہے۔بلاشبہ زندگی کے اس کرب مسلسل میں ’’بھلا بھیامیراچرخابھنا‘‘کہہ کرجبریت کی فضاکو ختم کیا جاسکتاہے ،لیکن کہیں یہ فراریت تونہیں؟۔ دنیا ہے تو دنیا داری بھی ہونی چاہیے لیکن محض شکم کی آگ بجھانے کے لیے سگ دنیابن جاناپرواز میں کوتاہی کے مترادف ہے۔بہ قول اقبال:

دل کی آزادی شہنشاہی شکم سامان موت
فیصلہ تیراترے ہاتھوں میں ہے دل یاشکم؟
فی الحقیقت صوفیا’’میرجی چاہتاہے کیاکیاکچھ‘‘والے تقاضوں کی تکذیب نہیں کرتے بل کہ انہیں تہذیب ہی بخشتے ہیں۔
ادارہ صوتِ ہادی کے ترجمان ’’صوتِ ہادی‘‘کے اس تازہ نقش میں چمنستان حدیث کے آنگن میں کھلنے والے اس فن یعنی تحقیق کوبنیادبنایاگیاہے۔ہمارادائرہ کار محدودہے لیکن فکری اورجمالیاتی آثارکی تفہیم ضرورکرتاہے۔
صوت ہادی کے گزشتہ شمارے خصوصاً’’ناصرشہزادنمبر‘‘اور’’شہر غزل کے بعد‘‘اس خطے میں تحقیق وتدقیق کے دوران اسکالرزکے لیے ایک معتبرحوالہ بنے۔دادوتحسین کے اس شور میں سوسو بوتلوں کا نشہ تھا،خمار کی اس جھونک میں پتہ ہی نہ چلاکہ برسوں بیت گئے ہیں۔اس کی تلافی تازہ شمارے سے کی جارہی ہے۔کوشش کی گئی ہے کہ اہل علم اورخانقاہ کی دماغی فریکوئنسی ایک ہوسکے۔
اس شمارے میں حضرت شیخ اعظم عبدالقادرجیلانیؓ کاایک نادرمضمون ’’قسم التوحید والاجلال‘‘کااصل عربی متن اردواورانگریزی تراجم کے ساتھ شامل کیاگیاہے۔مصنف اورمترجم شاخ نہال پرچہکنے والے دوپرندے ہیں جن کی آوازجداجداہوتی ہے۔ظاہرہے کہ ترجمہ اصل متن کی ترجمانی ہی کرسکتاہے۔سید علی ثانی جیلانی صاحب کے دومضامین ’’الصلوٰۃوالتسلیم علی رسولہ الکریم ‘‘اور’’عین التصوف‘‘ بھی شامل اشاعت ہیں ،جو اہل نظرکے لیے خوشبوکے جھرنے ثابت ہوں گے۔ان شاء اللہ۔
طاہرحسین قادری صاحب نے’’سبط الرسول الثقلینؓ ‘‘کے عنوان سے سیدناامام حسین d کی مقدس سیرت پرجامع مضمون تحریرکیاہے۔
تحویل قبلہ کے خوب صورت موضوع پرقاضی عبدالدائم دائم کاعلمی مضمون بھی اس شمارے کی زینت بنایاگیاہے۔بیدل عظیم آبادی مغل ہندوستان کے نمائندہ شاعر ہیں۔ان کے دقیق پہلووں اورشعری باریک بینیوں کے اثرات موجودہ عہد تک محسوس کیے جاسکتے ہیں ۔ ڈاکٹرمحمدشاہ گھگہ صاحب نے برصغیر کے دوعظیم تخلیق کاروں’’بیدل واقبال‘‘کے فکری اشتراکات کامطالعہ پیش کیاہے۔ادیبہ مستور صاحبہ نے مولاناجلال الدین رومیؒ کے تصورعشق سے اپناچراغ فکرجلایاہے۔
آخرمیں جدید اردوغزل کے منفرد شاعر سید مراتب اخترکے لیے خصوصی گوشہ مختص کیاگیاہے۔ان کے شعری جذب وکشف پرڈاکٹراصغرعلی بلوچ صاحب کامضمون مراتب اخترشناسی کے نئے درواکرتاہے۔ سید صاحب مرحوم کی منتخب غزلیں اور’’گاڑی‘‘کے عنوان سے ایک غیرمطبوعہ افسا نہ بھی تازہ شمارے کاحصہ بناہے۔
اس رسالے کی ترتیب وتہذیب میں ادارے کے ارباب خصوصاًسید علی ثانی جیلانی صاحب کی ذاتی دل چسپی ہماری تقویت کاباعث ہے۔

؂ 

ہر چند ہم نے عشق کو پنہاں کیا و لے
ایک آدھ لفظ پیار کا منہ سے نکل گیا
(میر)
محمدافتخار شفیع  
مدیراعزازی) 


Comments

Popular posts from this blog

سیرت سوانح سید عبدالرزاق المعروف داتا شاہ چراغ لاہوریؒ

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود پاک پڑھنا چاہیے یا نہیں؟ بہت خوب صورت تحریر ضرور پڑھیں

عرس پاک سید سید محمد سائیں گیلانی القادری الشیخوی